ہندوستان میں افغانستان کےسفیرفرید ماموندزی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ جب مشکل وقت میں افغان شہریوں کو ہندوستانی مدد کی ضرورت تھی، تو ان کی مدد نہیں کی گئی۔اب تک ہندوستان نے افغانستان سے 669 افراد کو نکالا ہے جن میں448 ہندوستانی اور 206 افغان شہری ہیں۔
نئی دہلی: افغانستان کےسفیرفرید ماموندزی نے کہا ہے کہ طالبان کے دورحکومت میں ملک چھوڑنے کےلیے بے تاب افغان شہریوں کو ہنگامی طور پر ویزا دینے میں تاخیر’مایوس کن’ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایک تاریخی دوست’سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔
افغانستان میں
طالبان کے قبضے کے بعد ہندوستان نے اب تک
صرف 200 ای-ویزا جاری کیے ہیں۔
دہلی کےسفارتی علاقےمیں نمایاں جگہ پر واقع افغان سفارت خانےمیں اپنے دفتر میں ماموندزی نے دی وائر کو بتایا،’ہمیں ہندوستان سے بہت امیدیں تھیں۔ ہندوستان کے لوگ ہمارے بہت قریبی رہے ہیں۔ ہندوستان کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں(ہندوستان)60000 گریجویٹ تھے۔ ہندوستان نے ہمارے بنیادی ڈھانچے اور ترقی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
اس لیے طالبان کے قبضےکے فوراً بعد ہندوستان کا ردعمل سفیر کے لیے’حیران کن’تھا۔
انہوں نے کہا، ‘بحرانی وقت میں ہم دوسرے ممالک کی طرف نہیں بلکہ ہندوستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہم بنگلہ دیش یا سری لنکا یا نیپال یا پاکستان یا چین کو نہیں دیکھتے، جن کے ساتھ ہماری سرحد لگتی ہے اور پھر یہ’تاخیر’مایوس کن تھی۔ اس نے ہمیں مایوس کیا۔
معلوم ہو کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے ایک دن بعد ہندوستان نے کہا تھا کہ وہ افغانی ہندوؤں اورسکھوں کےانخلا میں مدد کرے گا۔اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا تھاکہ وہ افغان شہریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، جو ہماری’باہمی ترقی اور تعلیمی کوششوں کو فروغ دینے میں ہمارے اتحادی’ رہے ہیں۔
اب تک ہندوستان نے افغانستان سے 669 افراد کو نکالا ہے جن میں 448 ہندوستانی اور 206 افغان شہری ہیں۔ افغانستان سے لوگوں کو ہندوستان لانے والی حالیہ پرواز 10 دسمبر کو پہنچی تھی، جس میں 10 ہندوستانی اور 94 افغانی(بالخصوص ہندو اور سکھ برادریوں کے لوگ) تھے۔
بتادیں کہ17 اگست کو ہندوستانی حکومت نے افغان شہریوں کے لیے ایک نئی ایمرجنسی ای-ویزا کیٹیگری کا اعلان کیا تھا۔
سفیر ماموندزی نے کہا، جب کہ امریکہ نے 150000 سے 160000 افغانوں کو نکالا ہے، یورپی یونین نے تقریباً100000افغانوں کو نکالا ہے۔ امریکہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان سے تین سے چار گنا چھوٹا ہے اور افغانستان سے اس کا فاصلہ ہندوستان سے 10 گنا زیادہ ہے، لیکن ہندوستان نے اب تک صرف 200 ای ویزا جاری کیے ہیں۔
اس سال مارچ میں چارج سنبھالنے والے ماموندزی نے کہا،ہندوستان جیسے ملک کی طرف سے صرف 200 ای-ویزا جاری کرنا ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان کی آبادی سے موازنہ کیا جائے تو فی دس لاکھ افراد پر صرف چار سے پانچ ویزا جاری کیے گئے ہیں۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ تقریباً 60000 افغان شہریوں نے ہندوستانی ای-ویزا کے لیے درخواست دی تھی۔
انہوں نےکہا،(ہندوستان میں واقع)سفارت خانے میں ایسے ساتھی ہیں جن کے اہل خانہ تین ماہ سے زیادہ عرصے سے ای ویزا کے منتظر ہیں۔ جب ان کی مدد کرنے کی بات آتی ہے تو میں بے بس ہوجاتاہوں۔
گزشتہ17اگست کو ہندوستانی حکومت نے افغان شہریوں کے لیےایک نئی ایمرجنسی ای-ویزا کیٹیگری کا اعلان کیا تھا۔ ہندوستان کی جانب سے 15 اگست سے پہلے دیے گئے تمام غیر استعمال شدہ ویزوں کو منسوخ کرنے کے بعد ہندوستانی ای-ویزا کی مانگ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اس کے پیچھے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر دلیل دی گئی۔اس کا کہنا تھاکہ ہندوستان کےویزا دفترسےکچھ پاسپورٹ مل نہیں ہو رہے ہیں۔ تاہم افغان ٹریول ایجنسی کے سربراہ، جو 10 سال سے زائد عرصے سے ویزا آؤٹ سورسنگ کا کام سنبھال رہے ہیں ،انہوں نے اس کی تردید کی تھی۔
ماموندزی نے یہ بھی کہا کہ ،سیکورٹی کا حوالہ دیتے ہوئے 15 اگست سے پہلے ہندوستان کی طرف سے افغان شہریوں کے تمام ہندوستانی ویزے منسوخ کرنے کے پیچھے کی وجہ ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔
انہوں نے کہا، لوگ یہاں ٹھیک اسی مقصد سےآ رہے تھے۔ ہندوستان میں انہیں ایک دوست دکھا۔ ہندوستان میں انہوں نے سلامتی دیکھی۔ یہ واقعی افسوسناک ہے کہ ایک مشکل وقت میں ہندوستانی مدد کے محتاج افغان شہریوں کی مدد نہیں کی گئی۔
ہندوستانی حکومت نے پارلیامنٹ کو یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں رہنے والے 4557 افغان شہریوں کے قیام کے ویزوں میں توسیع کر دی گئی ہے۔
افغانستان کئی سالوں سے ہندوستان میں غیر ملکی طلبا کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ ہندوستان نے اپنے تعلیمی اداروں میں نوجوان افغانوں کو اسٹریٹجک پالیسی کے تحت بڑھاوا دیا تھا۔
سال2016 سے اب تک 39000 سے زیادہ افغان طالب علم ویزوں پر ہندوستان آچکے ہیں۔ کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے یہ تعداد 2020 اور 2021 میں تقریباً آدھی رہ گئی تھی۔
طلبا کے علاوہ ہندوستان نےدفاعی اداروں میں تربیت کے لیےافغان نیشنل آرمی کے افسران کو بھی مدعو کیا۔ اس وقت ہندوستان میں تقریباً 180 افغان افسران ہیں، جن میں سے ایک تہائی نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے۔
سفیر نے کہا، یہ بھی باعث تشویش ہے کہ تربیت ختم ہونے کے بعد وہ واپس افغانستان نہیں جا سکتے ہیں ۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ طالبان فورسز نے افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے 100سے زائد سابق ارکان کو ہلاک کردیا یا غائب کردیا ہے۔
اب تک سابق افسران اور ان کے اہل خانہ کو کچھ مقامی گروپس کی جانب سے ضروری اشیاء اور خوراک فراہم کی گئی ہے۔ سفیر نے کہا، اندرونی طور پر ہم ان کی رہائش کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سفارت خانہ خود مشکل میں ہے۔ تنخواہ پچھلی بچت سے ادا کی جا رہی ہے۔
انہوں نے افغانستان کی سنگین صورتحال پر بھی روشنی ڈالی، جہاں تقریباً پوری آبادی غربت کے دہانے پر ہے۔
انہوں نے کہا، کئی لوگ درختوں پر اشتہار لگا رہے ہیں کہ ‘میں اپنا گردہ بیچنے کو تیار ہوں’۔ یہ افغانستان میں ہورہی تباہی کی شدت ہے۔ افغان اس بحران سے عارضی نجات کے لیے طالبان کی طرف نہیں بلکہ اپنے اتحادیوں، عالمی برادریوں اور ذمہ دار ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)