لداخ کو ریاست کا درجہ دینے، آئین کے چھٹے شیڈول میں توسیع اور لیہہ اور کارگل اضلاع کے لیے الگ لوک سبھا سیٹوں سمیت مختلف مطالبات کے سلسلے میں ‘دلی چلو پیدل مارچ’ کے تحت سونم وانگچک اور ریاست کے سینکڑوں لوگ قومی دارالحکومت کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔
سونم وانگچک۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب)
نئی دہلی: لداخ کے لیے آئینی تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی جانب مارچ کر رہے کئی لوگوں کوسوموار کی رات دیر گئے دہلی-ہریانہ بارڈر پر پولیس نے روک لیا اور حراست میں لے لیا۔ مارچ میں آئےلوگوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، لداخ سے تقریباً 120 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک بھی شامل ہیں، جو مرکز کے زیر انتظام علاقے کو چھٹے شیڈول کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے قومی دارالحکومت کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ انہیں شہر کے بارڈر پر حراست میں لیا گیا اور انہیں شہر کی حدود میں علی پور اور دیگر تھانوں میں لے جایا گیا۔
وانگچک اور دیگر لوگ سرحد پر رات گزارنا چاہتے تھے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ دہلی میں حکم امتناعی نافذ ہونے کی وجہ سے پہلے انہیں واپس جانے کو کہا گیا، لیکن جب وہ نہیں رکے تو سرحد پر پہلے سے تعینات پولیس اہلکاروں نے وانگچک سمیت تقریباً 120 افراد کو حراست میں لے لیا۔
ذرائع نے بتایا کہ مارچ میں شریک خواتین کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شمالی اور وسطی دہلی میں پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی کے امتناعی احکامات کے پیش نظرانہیں حراست میں لیا گیا۔
اپنی حراست سے کچھ دیر پہلے وانگچک نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں دہلی کی سرحد کی تصاویر شیئر کی تھیں، جہاں پولیس کی بھاری موجودگی کے درمیان ان کی بسوں کو روکا گیا تھا۔ ویڈیو میں سونم کو پولیس افسران سے بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اپنی پوسٹ میں وانگچک نے کہا کہ دہلی پولیس اور ہریانہ پولیس کی کئی گاڑیاں ان کی بسوں کے ساتھ تھیں اور شروع میں ان کا خیال تھا کہ انہیں سیکورٹی دی جا رہی ہے، لیکن جیسے ہی وہ قومی دارالحکومت کے قریب پہنچے تو یہ واضح ہو گیا کہ انہیں حراست میں لیا جائے گا۔
وانگچک نے کہا، ‘جیسے جیسے ہم دہلی کے قریب پہنچ رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں سیکورٹی نہیں دی جا رہی ہے، بلکہ ہمیں حراست میں لیا جا رہا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ دہلی کی سرحد پر تقریباً 1000 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ دہلی کے لداخ بھون اور ان علاقوں میں جہاں لداخ کے طلباء رہتے ہیں وہاں سیکورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ وہ اس مارچ کو ہونے نہیں دینا چاہتے۔’
غورطلب ہے کہ ‘دلی چلو پیدل مارچ’ کا اہتمام لیہہ اپیکس باڈی (ایل اے بی) نے کیا تھا، جو کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے ساتھ مل کر گزشتہ چار سالوں سےریاست کا درجہ دینے، آئین کے چھٹے شیڈول کی توسیع، لداخ کے لیےلوک سیوا آیوگ کے ساتھ جلدی بھرتی کے عمل اور لیہہ اور کارگل اضلاع کے لیے الگ لوک سبھا سیٹوں کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک مشترکہ تحریک چلا رہی ہے۔
کے ڈی اے کے سجاد کارگلی نے کہا کہ دہلی پولیس نے پہلے اجتماع کی اجازت دی تھی اور سوموار کو اس کورد کر دیا گیا۔
کارگلی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں دارالحکومت میں پرامن طریقے سے مارچ کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا اور سرحد پر روک دیا گیا۔’ لوگوں کو احتجاج کے ان کے بنیادی حق سے محروم کر کے نہیں پیچھےنہیں دھکیلنا چاہیے، خاص طور پر لداخ کے لوگوں سےاتنا کچھ چھیننے کے بعد— ہمارے روزگار کے مواقع، زمین کے حقوق، نمائندگی اور بہت کچھ۔ حکومت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور یہ 5 اگست 2019 کے واقعات کے بعد ایک اور دھوکہ ہے۔ ہمیں جتنی بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے، ہم لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور چھٹے شیڈول کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔’
دہلی میں چھ دن کے لیے مظاہروں پر پابندی
امن و امان کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے دہلی پولیس نے سوموار کو کئی تنظیموں کے احتجاج کے مطالبے کے درمیان قومی دارالحکومت کے مرکزی حصے اور سرحدی علاقوں میں پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے، بینر، تختیاں، ہتھیار لے کر چلنے اور احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے کہا کہ دہلی میں امن و امان کے نقطہ نظر سے عام صورتحال حساس ہے، کیونکہ مجوزہ وقف ترمیمی بل کے تناظر میں فرقہ وارانہ ماحول، ایم سی ڈی اسٹینڈنگ کمیٹی کے انتخابات کا سیاسی مسئلہ، دلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین (ڈی یو ایس یو) انتخابات کا اعلان، 2 اکتوبر (مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش) پر وی وی آئی پی کی آمد ورفت، جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات اور تہوار وں کا موسم شامل ہے۔
دہلی پولیس ہیڈکوارٹر سے جاری حکم کے مطابق، پولیس کمشنر سنجے اروڑہ نے نئی دہلی، شمالی اور وسطی اضلاع اور دیگر ریاستوں سے متصل تمام تھانوں کے علاقوں میں انڈین سول ڈیفنس کوڈ کی دفعہ 163 (جو پہلے سی آر پی سی کی دفعہ 144 تھی) کو نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔امتناعی حکم نامہ 5 اکتوبر تک نافذ رہے گا۔
راہل گاندھی نے کہا، ‘سونم وانگچک اور ان کے حامیوں کی حراست ناقابل قبول ہے’
لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے منگل کو سونم وانگچک اور ان کے حامیوں کو سنگھو سرحد پر دہلی پولیس کے ذریعے حراست میں لینے پر تنقید کی اور اسے ‘ناقابل قبول’ قرار دیا۔
راہل گاندھی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘ ماحولیات اور آئینی حقوق کے لیے پرامن طریقے سے مارچ کر رہے سونم وانگچک جی اور سینکڑوں لداخیوں کی حراست ناقابل قبول ہے۔ لداخ کے مستقبل کے لیے کھڑے ہونے والے بزرگوں کو دہلی بارڈر پر کیوں حراست میں لیا جا رہا ہے؟’
انہوں نے کہا، ‘مودی جی، کسانوں کی طرح یہ چکرویوہ بھی ٹوٹے گا اور آپ کا غرور بھی ٹوٹے گا۔ آپ کو لداخ کی آواز سننی ہوگی۔’
وہیں، سونم وانگچک کی نظر بندی پر کانگریس لیڈر
پون کھیڑا نے کہا، ‘آزادی کے بعد پہلی بار یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کسانوں، ماحولیاتی ماہرین اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے لیے دہلی کے دروازے بند ہیں۔ … آپ تالہ لگارہے ہیں.’
انہوں نے کہا، ‘آپ راج گھاٹ کو بند کر رہے ہیں جو آئین میں یقین رکھنے والوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے… یہ ایک گناہ ہے جو بی جے پی حکومت نے کیا ہے۔’