عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان اور ابھی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو قوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔اس کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
آگرہ میں عام آدمی پارٹی کی ترنگا یاترا کے دوران دہلی کے ڈپٹی سی ایم منیش سسودیا اور راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@ManishSisodiaAAP)
ترنگا، سنا ہے ‘رام للا مندر’پرمتھا ٹیکنے کے لیے رکےگا اور ہنومان گڑھی کا پھیرا بھی لگائےگا۔ یہ عام آدمی پارٹی مارکہ ترنگا یاترا کی تفصیلات ہیں۔ ہاتھوں میں ترنگا اور ہونٹوں پر جئے شری رام۔ اتر پردیش میں انتخاب کی دھمک ہے اور عام آدمی پارٹی نے 14اگست سے ہی صوبے میں الگ الگ جگہوں پر ترنگا یاترا کرنا شروع کر دیا ہے۔ لکھنؤ، آگرہ، نوئیڈا کے بعد ایودھیا کی باری ہے۔
ایودھیا کا تصور رام کے بنا نہیں کیا جا سکتا،عزت مآب صدر جمہوریہ نے یہ بنیادی جانکاری یا وارننگ کہہ لیں، حال ہی میں ملک کو دی ہے۔انہیں لغوی معنوں میں بات کرنی چاہیے تھی۔کہنا چاہیے تھا کہ ایودھیا کی بات اس رام کے بنا نہیں کر سکتے جس کے سرپرست اور دوست آر ایس ایس اور اس سےمتعلق تنظیمیں ہیں۔ جیسےتلسی داس ویدیہی کے بنا رام کاتصور نہیں کر سکتے تھے ویسے ہی اب آر ایس ایس کی سرپرستی کے بغیر رام کا تصورنہیں کیا جا سکتا۔
چونکہ ایودھیا کا تصور سنگھ کی سرپرستی والے رام کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، وہاں ہر مقدس کام کے پہلے ان کاحامی بھرنا ضروری ہوگا۔ اس لیے ترنگے کی حاضری رام للا کے دربار میں ہونا ضروری ہے۔
عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان کے، اور ابھی تو اتر پردیش کے رائے دہندگان کوقوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، عام آدمی پارٹی کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
کچھ لوگ اسے ایک مؤثر حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ابھی جب ‘رام مارگی’قوم پرستی کا بول بالا ہے، آپ راستے سے الگ ہونے کا خطرہ نہیں اٹھا سکتے۔بالخصوص تب جب ‘بچہ بچہ رام کا’ہو گیا ہو اور وہی بچہ ووٹر بھی ہو تو عام آدمی پارٹی کرے کیا؟ وہ اپنےلیےقوم پرستی کی سند ایودھیا کے سنگھ کی سرپرستی والےرام سے کروانے کے بعد ہی یہ اہلیت حاصل کر پائےگی کہ ووٹروں کو اپنے سشاسن کی باقی اہلیت کی فہرست دکھا سکے۔ ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگاکر ہی آپ اس ‘رام بچہ’یعنی ووٹر کو بتا سکتے ہیں کہ آپ اس کے دوست ہیں۔
ایودھیا کے سنگھ کی سرپرستی والے رام مندر کو لےکر عام آدمی پارٹی نے پہلی بار اپنی محبت کا مظاہرہ کیا ہو، ایسا نہیں ہے۔
یہ قبول کرنے کے بعد کہ صدیوں سے اس زمین پر مسجد تھی، کہ وہ زندہ مسجد تھی، کہ اس کے کوئی ثبوت نہیں کہ وہ کسی رام مندر کو توڑکر بنائی گئی تھی، کہ اس میں رام للا اور دوسرےدیوی، دیوتاؤں کی مورتیاں چوری چوری، مجرمانہ طور پر رکھی گئی تھیں، کہ اس مسجد کو توڑنا جرم تھا، یہ سب ماننے کے بعد بھی جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو بابری مسجد انہدام کے منصوبہ بنانے سے لےکر اسے انجام دینے والوں کے ہاتھ دے دیا تو عدالت کی اس الٹ بانسی پر جو جھوم اٹھے تھے ان میں عام آدمی پارٹی بھی تھی۔
قانون کو جاننے والوں نے سپریم کورٹ کی اس ریاضت پر سرپکڑ لیا لیکن‘رام بچوں’کے ووٹ کے لالچ میں عام آدمی پارٹی نے ہی کیوں تقریباًتمام سیاسی پارٹیوں نے عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ پھر تو اس سنگھ کی سرپرستی والے رام مندر کے تئیں اپنی انسیت کے مظاہرہ کے لیے پارٹیوں میں ہوڑ لگ گئی۔
عام آدمی پارٹی کی دہلی سرکار نے تیرتھ یاترامنصوبے میں اسے شامل کیا اور اس کے لیے‘تیرتھ یاتریوں’ کومالی مدد دینے کااعلان کیا۔
عام آدمی پارٹی کے اس ‘انحراف’یا ‘زوال’پر اس کی اچھی حکمرانی(سشاسن)کے بعض خیرخواہوں نےمایوسی کا اظہار کیا ہے۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ ہندوؤں کو سنگھ اور بی جے پی کے ہاتھ نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ویسے ہی قوم پرستی کو بھی ان کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ نہ حب الوطنی کو۔ اس لیے عام آدمی پارٹی ایک‘اسمارٹ’سیاسی چال چل رہی ہے۔ اسے صرف رام مارگی بھی کہنا غلط ہوگا۔
عام آدمی پارٹی نے اس کے پہلے اتراکھنڈ کے لیے اپنےوزیر اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان کیا۔سابق کرنل اجے کوٹھیال کو ‘دیش بھکت فوجی’ کے روپ میں پیش کیا گیا۔ لیکن فوجی ہونے بھر سےحب الوطنی مکمل نہیں ہوتی۔ سو، عام آدمی پارٹی نے عوام کو مطلع کیا کہ کوٹھیال صاحب نے 2013 کے سیلاب میں تباہ ہوئے کیدارناتھ کے مندر کی دوبارہ تعمیر میں کتنا بڑا رول نبھایا تھا۔
اتر پردیش میں رام اور اتراکھنڈ میں شیو۔ گجرات میں؟عام آدمی پارٹی نے اپنے قومی سیاسی عزائم کا اظہارگجرات کے اپنے پروگراموں میں کیا۔ عموماً ایک مہذب اور سلجھے ہوئےشخص کی امیج والے دہلی کے ڈپٹی سی ایم نے گجرات میں کہہ ہی ڈالا کہ ‘آخر بھارت میں جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگےگا تو کہاں لگےگا؟’
ان کے اس چیلنجنگ سوال کے سیاق و سباق کویاد رکھنا ضروری ہے۔ دہلی میں ایک نوجوان رنکو شرما کا قتل ہو گیا تھا۔ بی جے پی نے اپنی سیاست کےآزمودہ نسخوں کے مطابق ہی الزام لگایا کہ اس کاقتل‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے کی وجہ سے ہوا۔ عام آدمی پارٹی کیوں پیچھے رہتی؟اس نے بی جےپی کو اسی کے میدان میں شکست دینےکے مقصد سے الزام لگایا کہ دہلی میں اب ‘جئے شری رام ‘کا نعرہ لگانا خطرناک ہے جبکہ پولیس بی جے پی مقتدرہ یونین سرکار کے ماتحت ہے۔
عام آدمی پارٹی کے حامیوں کےمطابق یہ سیاسی ہوشیاری تھی کہ بی جے پی کو لاجواب کیا جا سکے۔
بی جے پی سے عام آدمی پارٹی کا مقابلہ چل رہا ہے کہ کون بڑا ہندوپرست ہے۔ پچھلی دیوالی کو دہلی کےوزیر اعلیٰ نے اپنا دربار سجایا۔ ان کے اور ان کےدوستوں کے سامنے ایک پھوہڑ دیپ نرتیہ(رقص) پیش کیا گیا۔وزیر اعلیٰ نے پوری دہلی کو دیوالی کے موقع پر پوجا کرنے کو کہا،یہ بھول کر کہ سارے دہلی والے پوجا نہیں کرتے۔ اس کے پہلے انتخاب میں اپنی جیت کے لیے انہوں نے ہنومان کا شکریہ بھی اداکیا۔
طنزومزاح کو اگر ہم کنارے کر دیں تو یہ سوال سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہندوستان میں،بالخصوص ‘ہندی بولنے والے’ بھارت میں سیاسی پارٹیوں نے یہ مان لیا ہے کہ ان کے بیچ مقابلہ اب ہندو ووٹوں کے لیے ہی ہے؟ اور کیا ساتھ ہی یہ بھی مان لیا ہے کہ یہ ہندو مسلمان مخالف نفرت میں مبتلااکثریتی قوم پرستی کے پیروکار ہو چکے ہیں؟
اور اس لیے ان کے اس فریسٹریشن کو سہلانے کے بعد ہی ان سے کوئی دوسری بات کی جا سکتی ہے؟ کیا اسی لیے وہ ایودھیا کے سنگھ کے زیر انتظام رام مندرمیں متھا ٹیکیں گے، کہ وہ جئے شری رام کا نعرہ لگائیں گے، کہ وہ ترنگا لہراکر ہی ہر دنیاوی کام کی شروعات کریں گے؟
کیا وہ واقعی مانتے ہیں کہ وہ ‘ہندوؤں’کی مذہبی ، ثقافتی اورقوم پرست خواہشات کا اظہار ہیں؟ اگر ہندوؤں کے بارے میں تمام جماعتوں کی یہی رائے ہے تو یہ ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
جن کاسیاسی حافظہ درست ہے انہیں یاد ہوگا کہ مسلمانوں پر حملے اور ان کو پیچھے دھکیلنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ترنگا کا استعمال شروع کیا تھا۔ 1994 میں کرناٹک کے ہبلی کےعیدگاہ میدان میں جبراً ترنگا پھہرانے کی مہم ہو، یا سشما سوراج اور اوما بھارتی کی سربراہی میں اکھل بھارتیہ ترنگا یاترائیں ہوں، یا لال چوک پر ترنگا لہرانے کا بی جے پی کا پروگرام ہو، سب میں ترنگے کے پھہرانے میں ایک اکثریتی قوم پرستی کی جارحیت کو چھپانے کی پرتشدد چالاکی تھی۔
ترنگا لےکر آپ مسلمانوں کے محلے میں گھس کر ہڑبونگ کر سکتے ہیں، ان کی مسجد پر ترنگا لےکر چڑھ سکتے ہیں،یہ سب کچھ 2014 کے بعد نظر آنے لگا۔ ترنگا، جئے شری رام اور وندے ماترم اکثریتی قوم پرستی کی زبان کے محاورے بن گئے۔
‘رام’ کے کندھے پرسوار اس قوم پرستی کے ماتھے پر مسلمانوں کی مخالف کا ٹیکہ لگا ہوا ہے۔ جو بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس رام سواری والےقوم پرستی کا علمبردار ہے لیکن اس کے ماتھے پرمسلمان کی مخالفت کا یہ تلک نہیں ہے، وہ خود سے اور دوسروں سے دھوکہ کرتا ہے۔
عام آدمی پارٹی نے شاہین باغ کی تحریک کی حمایت نہیں کی تھی۔ بلکہ اس کا تمسخر بنایا یہ کہہ کر کہ یہ تحریک بی جے پی کی سازش تھی۔ یہ بھی کہا کہ اگر پولیس اس کے ہاتھ ہوتی تو وہ تین دن میں شاہین باغ صاف کر دیتی۔ کیایہ شاہین باغ اور سی اےاے مخالف تحریک پر تشددکا اکساوا نہ تھا؟
مسلمانوں کی جانب سے بےحسی بالآخر ان کے خلاف لسانی ، ثقافتی اور سیاسی تشدد میں بدل جاتی ہے۔پچھلے سال جب سی اے اے مخالف مظاہرین پر حملوں کے ساتھ شمال-مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا تو عام آدمی پارٹی نے خاموش اختیار کرلی۔
اس نے اپنے کونسلر طاہرحسین کی قربانی دے دی جب ان پر تشدد کا الزام لگا جبکہ نجی بات چیت میں عام آدمی پارٹی کے رہنما اس کو غلط بتلاتے ہیں۔ اس کے پہلے اس نے کنہیا، عمر خالد، انربان وغیرہ پرسیڈیشن کا مقدمہ چلانے کی منظوری دی۔
شمال-مشرقی دہلی کےتشددمیں عام آدمی پارٹی نے ہاتھ باندھ لیے۔مسلمانوں پرتشدد کو اس نے خاموشی سے دیکھا۔ ان کے ساتھ کھڑا ہونا اس نے ضروری نہیں سمجھا جبکہ اس کی انتخابی جیت میں مسلمانوں کا فیصلہ کن رول تھا۔ لیکن اس کے پہلے بھی کورونا انفیکشن کے دوران تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام عام آدمی پارٹی کی سرکار اور اس کے رہنماؤں نے لگایا اور مسلمان مخالف تشددکو ہوا دیا۔
اسی طرح ابھی حال میں دہلی میں جگہ جگہ ہوئے پرتشدد مظاہروں پر بھی اس نے خاموشی کو ترجیح دی، جن میں مسلمانوں کے قتل کے اکساوے والے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ یہ بہت صاف ہے کہ ایک بار آر ایس ایس مارکہ قوم پرستی کی زبان کو اپنا لینے کے بعد مسلمان کے خلاف ہوئے بنا آپ رہ نہیں سکتے۔
عام آدمی پارٹی کے دہلی میں 115 فٹ اونچے ترنگوں کو 500مقامات پر لہرانے کا فیصلہ بھی اس اکثریتی قوم پرستی مقابلے کا ہی ایک نمونہ ہے۔
ہندوستان کا سب سے بڑابحران آج یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی ، ثقافتی اور شہری حقوق خطرے میں ہیں۔ آج کے ہندوستان میں جو خود کو جمہوریت پسند کہتا ہے، اگر وہ اس کی بات نہ کرے اور اس سیاست کے خلاف اگر نہ کھڑا ہو تو اس کے آدمی ہونے پر ہی شک ہے، بھلے اس کے نام میں عام آدمی شامل ہو۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)