بی جے پی کی اینٹی کرپشن والی امیج دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہے اور 2024 تک حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسر لفظوں میں کہیں تو، اگر کانگریس کرناٹک میں اچھی جیت درج کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو 2024 کے انتخابی موسم کی شروعات سے پہلےکرناٹک قومی اپوزیشن کے لیےامکانات کی راہیں کھول سکتا ہے۔
(تصویر بہ شکریہ: Facebook/@INCKarnataka)
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کریں گے۔ اگر کانگریس کرناٹک میں جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس سے نہ صرف پارٹی کو تقویت ملے گی، بلکہ اپوزیشن اتحاد کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ حالیہ مہینوں میں اپوزیشن اتحاد کی قواعد تیز ہوتی دیکھی گئی ہیں۔ راہل گاندھی کی پارلیامنٹ کی رکنیت ختم کیے جانے کے بعد پوری اپوزیشن نے ایک آواز میں اس کی مذمت کی۔ اسی طرح کئی علاقائی پارٹیوں کے رہنما ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے میں ایک ساتھ نظر آئے ۔
کرناٹک پہلے سے ہی یہ اشارہ د ے رہا ہے کہ مذہبی مٹھوں سے صیقل مقامی کاسٹ کلچر ، ہندوتوا طاقتوں کوآسانی سے گھس پیٹھ کرنے دینے کو تیار نہیں ہیں۔ لنگایت اور ووکلیگا برادریوں سے تعلق رکھنے والے طاقتور مٹھ سیاسی اثر و رسوخ کااستعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ وہ ہندوتوا کے نظریے کے اس طرح سے حامی نہیں ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بی جے پی نے تاریخ میں پھیر بدل کرنے کے اپنے منصوبے کے تحت یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیا کہ ٹیپو سلطان کو دراصل دو ووکلیگا باغیوں نے مارا تھا نہ کہ انگریزوں نے جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، تب ایک اعلیٰ ووکلیگا مٹھ کے سربراہ نے تاریخ کو اس طرح تبدیل کرنے کی بی جے پی کی کوشش کو مسترد کردیا۔ بی جے پی ایم ایل اے کو اس موضوع پر ایک فلم پروجیکٹ کو بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ مٹھ سربراہ نے بی جے پی کو بتایا ہے کہ مسلمان اور ووکلیگا صدیوں سے آپس میں بھائی چارہ کے ساتھ رہتےآئے ہیں اور وہ جھوٹی تاریخ کے ذریعے اس ہم آہنگی کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔
بارہویں صدی کی برہمن مخالف سماجی اصلاحی تحریکوں سے پروان چڑھا لنگایت مٹھ بھی ہندوتوا کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے، حالانکہ بی ایس یدیورپا، جگدیش شیٹار اور لکشمن ساودی جیسے مقبول لنگایت لیڈروں کے ساتھ اقتدار میں ان کا دخل رہا ہے۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے اس بار شیٹار اور ساودی کا پتہ کاٹ دیا ہے، لیکن وہ نہ چاہتےہوئے آج بھی لنگایت ووٹوں کے لیے یدی یورپا پر انحصار کر رہی ہے۔ اس کا مقصد آنے والے وقتوں میں لنگایت لیڈروں کی نکیل کسنے اور ریاست میں ایک ایسی قیادت تیار کرنے کی ہے جو لنگایتوں پر انحصار کرنے کے بجائے ایک وسیع تر ہندوتوا ووٹ بینک تیار کر سکے۔
یدی یورپا اور بی جے پی کی مرکزی قیادت کے درمیان مستقل کشمکش کی جڑ بھی یہی ہے۔ یدی یورپا بھی مسلم کمیونٹی کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنے میں پختہ یقین رکھتے ہیں اور بی جے پی کی جارحانہ اکثریتی حکمت عملی کے حامی نہیں ہیں۔ اس لیےیہاں ہندوتوا مقامی ذات پات یا مذہبی ثقافتوں، جن کا جنم برہمنیت کی مخالفت پر مبنی سماجی اصلاحی تحریکوں سے ہوا ہے، کے خلاف کھڑا رہتا ہے ۔
یقیناً نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت میں بی جے پی اس سماجی تاریخ کو بدلنا چاہتی ہے، لیکن اب تک انہیں اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ملی ہے۔اولڈ میسور، چکمنگلور، ہاسن، شیوموگا اور ہبلی کے دورے کے دوران، حجاب، لو جہاد، یکساں سول کوڈ یا این آر سی جیسے ہندوتوا کے پسندیدہ موضوعات کا کوئی ذکر سنائی نہیں پڑا، جسے بی جے پی نے اپنے منشور میں بھی شامل کیا ہے۔ عوام کے درمیان یہ موضوع نہیں ہیں۔ سیاست دان بھی اس پر بات نہیں کر رہے تھے۔
کرناٹک میں ایک انتخابی ریلی میں کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے کے ساتھ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پارٹی کے دیگر رہنما۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@INCKarnataka)
ہندوتوا کی سیاست نے یقینی طور پر ساحلی کرناٹک (منگلورو-اڈپی علاقہ) میں قدم جمائے ہیں، لیکن باقی کرناٹک اب بھی واضح طور پر مقامی ذات پات کی ثقافتوں سے رہنمائی حاصل کر رہا ہے۔ یہ ایک طرح سے ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے مطالبے کے عین مطابق ہے۔
اگر کانگریس، حکومت مخالف مضبوط لہر کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ حزب اختلاف کو ہندوتوا کے تریاق کے طور پر سیاست کی زیادہ معقول اور مساوی ذات پر مبنی حکمت عملی اپنانے پر آمادہ کرے گی۔ خاص طور پر جب تمام ذاتیں ریزرویشن پالیسی کے دائرے میں آ جائیں گی۔
کرناٹک انتخابات میں ایک اہم مسئلہ، جو مرکز میں بھی بی جے پی کی شبیہ کو متاثر کرتا ہے، وہ ہے ریاست میں بدعنوانی کی سطح۔ بدعنوانی ہر وقت، ہر جگہ ایک مسئلہ ہے، لیکن کرناٹک میں جس سطح پر بدعنوانی ہے، جس نے ’40پرسینٹ سرکار’ کے نعرے کو جنم دیا ہے، اس سے یقیناً بی جے پی کی قومی سطح پر شبیہ کو نقصان پہنچے گا۔ جیسا کہ سدرامیا نے کہا، ‘مودی جی کے نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا کے وعدے کا کیا ہوا؟’مودی ریاست میں پوری طاقت کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں، لیکن انہوں نے ایک بار بھی ’40 پرسینٹ سرکار’ کے الزام کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔
بی جے پی کی اینٹی کرپشن والی شبیہ آہستہ آہستہ خراب ہو رہی ہے اور 2024 تک حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو، اگر کانگریس کرناٹک میں اچھی جیت درج کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو 2024 کے انتخابی موسم کی شروعات سے پہلے کرناٹک قومی اپوزیشن کے لیے امکانات کی راہیں کھول سکتا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے
یہاں کلک کریں۔)