رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوکری کھونے والے ان 50 لاکھ لوگوں میں شہری اور دیہی علاقوں کے کم تعلیم یافتہ مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مردوں کے مقابلے خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے نومبر 2016 کو لئے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد ملک کے 50 لاکھ لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر لوگ غیر منظم علاقے کے،سماج کے کمزور طبقے سے ہیں۔
ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق؛ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹین ایبل ایمپلائمنٹ (سی ایس ای) نے ‘ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2019 ‘ نام سے اس رپورٹ کو منگل کو جاری کیا۔
سی ایس ای کے صدر اور اس رپورٹ کے اہم قلمکار پروفیسر امت بسولے نے کہا، ‘ یہ کل اعداد و شمار ہے۔ ان اعداد و شمار کے حساب سے پچاس لاکھ روزگار کم ہوئے ہیں، کہیں اور نوکریاں بھلےہی بڑھی ہوں لیکن یہ طے ہے کہ پچاس لاکھ لوگوں نے اپنی نوکریاں کھوئی ہیں۔ یہ اکانومی کے لئے صحیح نہیں ہے، خاص طورپر جب جی ڈی پی بڑھ رہی ہو۔ ورک فورس گھٹنے کے بجائے بڑھنا چاہیے۔ ‘
بسولے نے کہا کہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ نوکریوں میں گراوٹ نوٹ بندی کے وقت (ستمبر اور دسمبر 2016 کے درمیان چار مہینے کی مدت میں) کے آس پاس ہوئی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کے ذریعے نوٹ بندی کے اعلان کے وقت کے آس پاس ہی لوگوں کی نوکریاں جانی شروع ہوئی لیکن دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر ان دونوں کے درمیان تعلقات پوری طرح قائم نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ میں بےروزگاری اور نوٹ بندی میں تعلق نہیں دکھایا گیا ہے۔
یہ پوچھنے پر کہ نوکریوں کے چھوٹنے اور روزگار کے مواقع نہیں ملنے کی ممکنہ وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس پر بسولے نے کہا، ‘ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے علاوہ جہاں تک غیر رسمی معیشت کا سوال ہے، مجھے کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی۔ ‘اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوکری کھونے والے ان 50 لاکھ لوگوں میں شہری اور دیہی علاقوں کے کم تعلیم یافتہ مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔
نیوز 18 کی رپورٹ کے مطابق، روزگار اور مزدور پر اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2019 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20 سے 24 سال کے نوجوان لوگوں کے درمیان بےروزگاری سب سے زیادہ ہے، جو تشویش کا موضوع ہے کیونکہ یہ نوجوان طبقہ ورک فورس کو دکھاتا ہے۔ یہ شہری مرد اور خاتون، دیہی مرد اور خاتون سبھی کے لئے سچ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ‘ عام طور پر مردوں کی مقابلے خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔ خواتین میں بےروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے اور ورک فورس میں شراکت داری سب سے کم ہے۔ ‘رپورٹ میں کہا گیا، ‘ 1999 سے 2011 تک بےروزگاری کی شرح دو سے تین فیصد کے آس پاس رہنے کے بعد یہ 2015 میں بڑھکر پانچ فیصد کے آس پاس ہو گئی اور 2018 میں چھے فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ پی ایل ایف ایس اور سی ایم آئی ای-سی پی ڈی ایکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں مکمل بےروزگاری کی شرح چھے فیصدی کے آس پاس رہی، جو 2000 سے 2011 کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ ‘
اس میں کہا گیا، ‘ اس پوری مدت میں بےروزگاری کی شرح تین فیصد کے آس پاس رہی، تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان بےروزگاری کی شرح 10 فیصد تھی۔ یہ 2011 (نو فیصد) سے بڑھکر 2016 میں16-15 فیصدی کے آس پاس رہی۔ ‘
اس رپورٹ کے مطابق، ‘ گزشتہ تین سال ہندوستانی مزدور بازار اور System of labour statisticsکے لئے بہت اتار-چڑھاؤ سے بھرے رہے۔ اس کی چار وجوہات نظر آتی ہیں۔ پہلی اس دوران بےروزگاری بڑھی، جو 2011 کے بعد سے لگاتار بڑھ رہی ہے۔ دوسری، بےروزگاروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اور نوجوان زیادہ ہے۔ تیسری، کم تعلیم یافتہ لوگوں کی نوکریاں گئیں اور اس مدت میں کام کے مواقع کم ہوئے۔ چوتھی، بےروزگاری کے معاملے میں مردوں کے مقابلے عورتوں کی حالت زیادہ خراب ہے۔’