کیا ہندوستان کے بڑے اخبارات پریس کی آزادی پر چھوٹے اخباروں کے حق میں اداریہ لکھ سکتے ہیں؟ 

03:55 PM Nov 16, 2019 | رویش کمار

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ مسلسل پریس پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔  امریکی پریس نے اس کے خلاف جم‌کر لوہا لیا ہے۔  اخبار بوسٹن گلوب کی قیادت میں 300 سے زیادہ اخباروں نے ایک ہی دن پریس کی آزادی کو لےکر اداریہ شائع کئے ہیں۔

(فوٹو : رائٹرس)

امریکی پریس کی تاریخ میں ایک شاندار واقعہ ہوا ہے۔  146 سال پرانے اخبار بوسٹن گلوب کی قیادت میں 300 سے زیادہ اخباروں نے ایک ہی دن اپنے اخبار میں پریس کی آزادی کو لےکر اداریہ شائع کئے ہیں۔  آپ بوسٹن گلوب کی سائٹ پر جاکر  پریس کی آزادی کو لےکر لکھے گئے 300 اداریے کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

سب کااداریہ الگ ہے۔  صحافت کے طلباکو تمام اداریہ پڑھ‌کر اس پر پروجیکٹ رپورٹ لکھنی چاہیے۔آپ جانتے ہیں کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ جب تب پریس پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔  پریس کے خلاف اناپ شناپ بولتے رہتے ہیں۔  امریکی پریس نے اس کے خلاف جم‌کر لوہا لیا ہے۔  میں نیو یارک ٹائمس اور بوسٹن گلوب کے اداریے کا ترجمہ کر رہا ہوں تاکہ ہندی کے نوجوان صحافی اور قاری امریکی پریس کے لوگوں میں جھانک‌کر دیکھ سکیں۔

پہلا ترجمہ نیو یارک ٹائمس کے اداریہ کا ہے :

1787 میں جب آئین کا جنم ہوا تھا، اس سال تھامس جیفرسن نے اپنے دوست کو لکھا تھا کہ اگر مجھ پر اس کا فیصلہ چھوڑا جاتا کہ حکومت ہو مگر اخبار نہ ہو، اخبار ہو لیکن حکومت نہ ہو تو میں ایک جھٹکے میں دوسرے اختیار کو چن لیتا۔

جیفرسن کے صدر بننے سے پہلے یہ سوچ تھی۔  بیس سال بعد وہائٹ ہاؤس کے اندر سے پریس کو دیکھنے کے بعد ان کے دل میں اس کی اہمیت کو لےکر اعتبار کچھ کم ہو گیا تھا۔

‘ اخبار میں جو شائع ہوتا ہے اس پر کچھ بھی بروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس آلودہ گاڑی میں ڈالنے بھر سے سچ مشتبہ ہو جاتا ہے۔  ‘ جیفرسن کے خیال اب یہ ہو جاتے ہیں۔

جیفرسن کی مشکل سمجھی جا سکتی ہے۔  ایک کھلے سماج میں خبر کی رپورٹنگ کا فرم کئی طرح کے مفادات کے ٹکراؤ سے جڑ جاتا ہے۔  ان کی مشکل سے ان حقوق کی ضرورت بھی جھلکتی ہے جس کو انہوں نے آئین میں جوڑا تھا۔  اپنے تجربات سے آئین سازوں کو لگا تھا کہ صحیح اطلاعات سے لیس عوام کو بد عنوانی مٹانے اور آگے چل‌کرآزادی اور انصاف کو پرجوش کرنے میں مدد ملتی ہے۔

عوامی بحث سیاسی فرض ہے۔  1964 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ بحث بنا کسی جھجک‌کے کھلے دل سے ہونی چاہیے۔  کئی بار حکومت اور سرکاری افسروں پر جم کر حملے ہونے چاہیے، بھلےہی وہ کسی کو اچھا نہ لگیں۔

2018 میں سرکاری افسروں کی طرف سے ہی پریس کو لےکر نقصان پہنچانے والے حملے ہوئے ہیں۔ کسی اسٹوری کو کم دکھانے یا زیادہ دکھانے کو لےکر نیوز میڈیا کی تنقید ٹھیک ہے۔ کچھ غلط شائع ہوا ہو تو اس کی تنقید ٹھیک ہے۔ نیوز رپورٹر اور مدیر بھی انسان ہیں۔ان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ان کو ٹھیک کرنا ہمارے پیشے کا اہم حصہ ہے۔  لیکن، آپ کو جو سچ پسند نہیں ہے اس کو ‘فیک نیوز ‘ کہنا جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔  صحافیوں کو عوام کا دشمن کہنا بھی خطرناک ہے۔

امریکہ میں چھوٹے اخبار اقتصادی بحران سے گزر رہے ہیں۔  پورے ملک کے صحافیوں کی حفاظت کے لئے بنے قانون بھی کمزور ہیں۔  ایسے میں پریس پر ہونے والے یہ حملے ان کے لئے چیلنج بن گئے ہیں۔ان سب کے بعد بھی ان اخباروں کے صحافی سوال پوچھنے کے لئے محنت کئے جا رہے ہیں اور آپ تک ان اسٹوری کو پہنچا رہے ہیں جن کے بارے میں آپ کو پتا بھی نہیں چلتا۔

‘ دی سین لوئیس اوبسپو ٹربیون ‘نے جیل میں بند ایک قیدی کے بارے میں رپورٹ شائع کی تھی جس کو 46 گھنٹے تک روک‌کر رکھا گیا تھا۔  اس رپورٹ نے ملک کو مجبور کر دیا کہ جیل میں ذہنی طور پر بیمار قیدیوں کے علاج میں تبدیلی لائی جائے۔

گزشتہ ہفتہ ‘دی بوسٹن گلوب ‘کی تجویز آئی تھی کہ ان کے اس مہم میں قصبوں کے چھوٹے اخباروں سے لےکر مہانگروں کے بڑے اخبار شامل ہو رہے ہیں۔  دی ٹائمس بھی اس میں شامل ہو گیا تاکہ ہم اپنے قارئین کو امریکہ کے آزاد پریس کی اہمیت کو یاد دلا سکیں۔  یہ تمام اداریہ یکجا ہوکر امریکی ادارے کی بنیاد کو نشان زد کر رہے ہیں۔

اگر آپ نے ان اداریہ کو نہیں پڑھا ہے تو برائے مہربانی مقامی اخباروں کو سبسکرائب کریں، جب بھی وہ اچھا کام کریں، ان کی تعریف کریں اور اگر لگے کہ اس سے بھی اچھا کر سکتے ہیں تو ان کی تنقید کریں۔  ہم سب اس میں ساتھ ہیں۔

نیو یارک ٹائمس کا اداریہ یہاں ختم ہوتا ہے۔

کیا ہندوستان کے بڑے اخبار چھوٹے اخباروں کے حق میں ایسے اداریے لکھ سکتے ہیں؟  کیا وہ پریس کی آزادی کی اپنی مہم میں چھوٹے اخباروں کو شامل کرتے ہیں؟

نیو یارک ٹائمس کے اس اداریہ سے آپ کو جھلک ملتی ہے کہ ہم جمہوری‎ اقدار کو ظاہر کرنے میں کتنا پیچھے ہیں۔ اس لئے ہندی کا صحافی جن کی زندگی ہندی کے اخباروں میں یقیناً تباہ ہونے والی ہے، ان کو اس کو پڑھنا چاہیے۔  کئی بار خود کا مطالعہ ہی تباہ ہونے سے بچا لیتا ہے۔  اخبار اور صحافت تباہ ہو جائے‌گی مگر ایک پڑھا لکھا باخبر صحافی بچا رہے‌گا۔  وہ بچ جائے‌گا تو پھر کبھی سب ٹھیک بھی ہو جائے‌گا۔

اب آپ امریکہ کے ‘دی بوسٹن گلوب ‘اخبار کی ویب سائٹ پر جائیں۔  وہاں اس مہم کے بارے میں لکھا ہے۔  اس اخبار نے ان تمام اخباروں کے اداریہ بورڈ سے رابطہ کیا جو آزاد اقدار اور پریس کی آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔  اداریہ کا ترجمہ پیش ہے:

‘ صدر ٹرمپ کی سیاست کے اہم مرکز میں آزاد پریس پر مسلسل حملہ کرتے رہنا ہے۔  صحافیوں کو امریکی شہری نہیں مانا جاتا ہے بلکہ ان کو لوگوں کے دشمن کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔  آزاد پریس پر ہونے والے مسلسل حملوں کے خطرناک نتیجہ ہوں‌گے۔  اس لئے ہم نے ملک بھر‌کے تمام چھوٹے اور بڑے اعتدال پسند اور قدامت پسند اخباروں کے اداریہ بورڈ سے رابطہ کیا کہ وہ ان بنیادی حملوں کو لےکر اپنے الفاظ میں اداریہ لکھیں۔  ‘

جب ملک میں کوئی بھی خراب اقتدار ر قابض ہوتا ہے تب اس کا کام ہوتا ہے کہ آزاد پریس کی جگہ حکومت ہدایت یافتہ میڈیا کو لے آئے۔  آج امریکہ میں ہمارے پاس ایک ایسے صدر ہیں جنہوں نے ایسی سوچ تیار کر دی ہے کہ میڈیا کا جو حصہ موجودہ انتظامیہ کی پالیسیوں کو سپورٹ نہیں کرتا ہے، وہ عوام کا دشمن ہے۔  صدر کے ذریعے پھیلائے گئے کئی جھوٹ میں سے ایک جھوٹ یہ بھی ہے۔

‘ آزادی کے تحفظ کے لئے پریس کی آزادی ضروری ہے۔  ‘جان ایڈم کا یہ قول 200 سالوں سے زیادہ امریکی اصولوں کا حصہ رہا ہے جس نے صحافیوں کی ملک میں حفاظت کی ہے۔دنیا کے دیگر ممالک میں پریس کے لئے ماڈل کا کام کرتا رہا ہے۔ آج اس پر سنگین خطرہ ہے۔  بیجنگ سے بغداد اور انکارا سے لےکر ماسکو تک کے تاناشاہوں کی طرف سے یہ اشارہ مسلسل دئے جا رہے ہیں کہ صحافیوں کو عوام کا دشمن بتایا جا سکتا ہے۔

آزاد سماج کے لئے پریس ضروری ہے کیونکہ یہ رہنماؤں پر آنکھ بند کرکے  بھروسہ نہیں کرتا ہے۔  چاہے وہ مقامی پلاننگ بورڈ کے ممبر ہوں یا پھر وہائٹ ہاؤس کے۔ یہ صرف اتفاق نہیں ہے کہ موجودہ صدر کے مالی معاملات میں کئی جھول ہیں، جن کے مشتبہ کردار کے چلتے انہی کے محکمہ انصاف نے ان کی تفتیش کے لئے ایک آزاد وکیل کی تقرری کی ہے۔  اب ایسے صدر نے ان صحافیوں کو دھمکانے کی بہت کوشش کی ہے جو آزادانہ طور  سے کئی حقائق کو سامنے لاتے ہیں۔

امریکہ میں سب کے درمیان ایک طے شدہ اور غیر جانبدارانہ اتفاق رہا ہے کہ پریس کا کردار اہم ہے۔  اس کے بعد بھی اب ایسے بہت سے امریکی ہیں جو اس رائے کو نہیں مانتے ہیں۔  اس مہینے اپسوس نے ایک سروے کیا تھا جس میں 48 فیصد ریپبلک کے حامیوں نے قبول کیا ہے کہ نیوز میڈیا امریکی عوام کا دشمن ہے۔  ایک اور سروے میں 51 فیصد ریپبلکن نے پریس کا موازنہ عوام کے دشمن سے کیا ہے۔  جمہوریت کا اہم حصہ نہیں مانا ہے۔

ٹرمپ کے حملے سے پتا چلتا ہے کہ کیوں ان کے حامی اس غیر جمہوری رویے کی حمایت کرتے ہیں۔  ایک چوتھائی امریکی اب کہنے لگے ہیں کہ صدر کے پاس خراب برتاؤ کرنے والے پریس کو بند کرنے کا حق ہونا چاہیے۔  اس سروے میں شامل 13 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ صدر کو سی این این، دی واشنگٹن پوسٹ اور دی نیو یارک ٹائمس جیسے اخباری ذرائع کو بند کر دینا چاہیے۔

اپنے حامیوں کو اکسانے والا یہ ماڈل بتا رہا ہے کہ 21 ویں صدی کے تاناشاہ روس‌کے پتن اور ترکی کے اردگان کیسے کام کرتے ہیں۔آپ کو اطلاعات کو روکنے کے لئے سرکاری طور پر سینسرشپ کے اعلان کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ٹرمپ کے حامی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کا اشارہ صرف اس میڈیا کی طرف ہے جو غیر جانبدار نہیں ہیں، وہ سارے پریس کے بارے میں ایسا نہیں کہتے ہیں۔  لیکن، صدر کے اپنے ہی لفظ اور ان کا ریکارڈ بار بار یہی بتاتا ہے کہ حامیوں کی اس دلیل میں کتنی بےایمانی ہے۔

امریکہ کے بانیوں نے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ پریس غیر جانبدار نہیں بھی ہو سکتا ہے پھر بھی انہوں نے آئین میں پریس اور صحافیوں کی آزادی کو یقینی بنایا تھا۔  تھامس جیفرسن نے لکھا تھا کہ ہماری آزادی پریس کی آزادی پر منحصر کرتی ہے اور اس کی کوئی سرحد نہیں طے کی جا سکتی ہے۔

آئین کے بانیان  سے لےکر تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو میڈیا سے شکایتں رہی ہیں۔  میڈیا پر الزام لگاتے رہے ہیں لیکن ایک ادارہ کے طور پر  پریس کا ہمیشہ احترام کیا گیا ہے۔  بہت لمبے عرصہ کی بات نہیں ہے جب ریپبلکن صدر رونالڈ ریگن نے کہا تھا کہ آزاد پریس کی ہماری روایت ہماری جمہوریت کا لازمی اور اہم حصہ رہا ہے اور رہے‌گا۔

1971 میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہیوگو بلیک نے لکھا تھا کہ پریس کا کام حکومت کی خدمت کرنا ہے نہ کہ حکمراں کی۔ آج ٹرمپ اپنے ساتھ اسی میڈیا کو لےکر جاتے ہیں جو ان کی قیادت کی وکالت کرتا ہے۔  سوال نہیں کرتا ہے۔

دیکھا جائے تو صرف صدر ہی اپنے سیاسی اور ذاتی فائدے کے لئے لوگوں میں تقسیم نہیں کر رہے ہیں۔  وہ اپنے حامیوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اسی کی تقلید کریں۔  پچھلے مہینے کنساس میں انہوں نے کہا تھا کہ بس ہماری سنو، یہ لوگ (پریس) جو بکواس دکھاتے ہیں اس پر یقین مت کرو۔  اتنا یاد رکھنا کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں یا پڑھ رہے ہیں وہی صرف نہیں ہو رہا ہے۔

جارج اورویل نے اپنے ناول ‘ 1984 ‘ میں کہا تھا، ‘ جو جماعت آپ کو یہ کہے کہ اپنی آنکھوں اور کانوں سے دیکھے اور سنے ثبوتوں کو مت مانو، یہ ان کی طرف سے سب سے ضروری اور آخری فرمان ہے۔’

آج ٹرمپ اپنے حامیوں کو یہی کرنے کے لئے کہتے ہیں۔  اپنی مدت کے پہلے 558 دنوں میں انہوں نے 4229غلط دعوے کئے ہیں۔  واشنگٹن پوسٹ نے ان کے جھوٹے دعووں کی فہرست بنائی ہے۔  پھر بھی ٹرمپ کے حامیوں میں محض 17 فیصد ایسے ہیں جو مانتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے۔  ان کا جھوٹ ہی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔

اطلاعات سے لیس شہریوں کے لئے جھوٹ ان کے وجود کی نفی کرتا ہے۔  امریکہ کی عظمت اس پر منحصر ہے کہ آزاد پریس اقتدار کے سامنے کھل‌کر سچ کا بیان کرے۔  پریس پر عوام کے دشمن کا لیبل چپکانا امریکی روایت نہیں ہے۔  دو سو سالوں تک جس شہریت کی مشترکہ سمجھ ہم نے بنائی ہے، اس کے لئے یہ فرمان خطرہ ہے۔

دی بوسٹن گلوب کا اداریہ یہاں ختم ہوتا ہے۔

اچھا ہوتا کہ کوئی سبھی تین سو اداریہ کا ترجمہ پیش کرتا کیونکہ ہر اداریہ میں الگ تجربہ اور حقیقت ہے۔اس سے پریس کی آزادی کو لےکر ہماری سمجھ اور وسیع ہوتی ہے۔  ہندی کے قارئین اور صحافیوں کے لئے میں نے اپنی چھٹی کے تین چار گھنٹے لگاکر یہاں ترجمہ کئے ہیں۔  یہ اس لئے بھی لکھا ہے تاکہ آپ کو پتا رہے کہ اس طرح کے کام میں محنت لگتی ہے۔  وقت لگتا ہے۔  سب کچھ یوں ہی  نہیں ہوجاتا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ سماج بہتر ہو، تو اپنے حصے کی محنت کاعطیہ دیجئے۔آنے والے دنوں میں کچھ اور اداریہ کا ترجمہ کروں‌گا۔

(یہ مضمون بنیادی طور پررویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)

یہ مضمون پہلی بار 22 اگست 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔