ایک مطالعے کے مطابق، سال 2018 میں ہر دن 554 اور ہر گھنٹے 23 لوگوں کو بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ تقریباً 1 کروڑ 10 لاکھ لوگ بے دخلی اور نقل مکانی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: ایک نئے
مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2018 میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بےدخل کیا گیا ہے۔ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (ایچ ایل آر این) کے ذریعے کئے گئے مطالعے کے مطابق ؛سال 2018 میں 41730 گھروں کے توڑے جانے سے 202233 لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی۔ اس حساب سے ہر دن 554 لوگ اور ہر گھنٹے 23 لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
ان میں سے تقریباً آدھے معاملے ‘ سلم کلیرینس ‘ (بستیاں ہٹانا) یا ‘ سٹی بیوٹی فیکیشن ‘ (شہروں کی آرائش) ڈرائیو کے تحت سامنے آئے۔ کچھ معاملوں میں نقل مکانی کے پیچھے کی وجہ-انفراسٹرکچر سے متعلق اسکیم، ماحولیات سے متعلق منصوبے اورقدرتی آفات سے متعلق منصوبے بتائے گئے ہیں۔رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ تقریباً تمام بے دخلی کے معاملوں میں افسروں نے قومی اور بین الاقوامی ہیومن رائٹس اسٹینڈرڈ کے ذریعے قائم عمل کی تعمیل نہیں کی ہے۔
اس کے علاوہ، زیادہ تر معاملوں میں متاثرین کمیونٹی کو پہلے سے نوٹس اور ان کے سامان کو شفٹ کرنے کے لئے مناسب وقت تک نہیں دیا گیا تھا۔ مطالعے کے مطابق، 173 سائٹوں میں سے صرف 53 میں ہی متاثرین کی بازآبادکاری کاانتظام یا اختیاری رہائش گاہ دی گئی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا، ‘ جبراً بے دخلی اور گھروں کو توڑنے کے واقعات کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر معاملے شہری غریبوں کے گھروں کو ہٹانے سے جڑے ہوئے ہیں جن کو ریاست اور اس کی ایجنسی ‘ غیر قانونی ‘ یا ‘ غیرقانونی قبضہ ‘ مانتی ہیں۔
سال 2010 کے سداما سنگھ معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود اس طرح کے معاملے لگاتار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس فیصلے میں کورٹ نے کہا تھا کہ بازآبادکاری کئے بغیر کسی کو گھر سے بےدخل کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔مارچ، 2019 کے
فیصلے میں بھی کورٹ نے کہا تھا کہ جو لوگ زبردستی بےدخل ہونے کے بعد شکایت لےکر آئے ہیں ان کو ‘ غیر قانونی قبضہ کرنے والے ‘ نہ کہا جائے۔
اس رپورٹ کے مطابق، 2018 میں سب سے بڑی نقل مکانی اکتوبر مہینے میں ممبئی شہر میں ہوئی، جہاں تانسا پائپ لائن کے لئے کی گئی بے دخلی میں 3000 فیملی متاثر ہوئی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں ایک کروڑ 10 لاکھ لوگ بے دخلی اور نقل مکانی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ اندازہ ایچ ایل آر این کے ذریعے اکٹھا کئے گئے ابتدائی اور متوسط ریسرچ دونوں پر مبنی ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے، ‘ اصل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ ملک میں بے دخلی اور نقل مکانی کے خطروں کا سامنا کرنے والے لوگوں پر کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہے۔ ‘دہرادون میں مبینہ غیر قانونی تعمیر کو ہٹانے کے لئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم سے 30000 سے زیادہ گھر بے دخلی اور نقل مکانی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
ستمبر 2018 تک تقریباً 5000 غیرقانونی قبضہ والی جگہوں کو تباہ کر دیا گیا تھا اور 8500 سے زیادہ کی پہچان کی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘ جبراً بے دخلی نہ ہی صرف قومی اور بین الاقوامی قوانین اور پالیسیوں کی خلاف ورزی ہے، بلکہ ایک مسلسل منظم طریقے سے غریبوں کی بے دخلی کو بھی دکھاتے ہیں۔ ریاست کے ذریعے جبراً بے دخلی کو جاری رکھا جانا ہندوستان میں رہائش گاہ کے بحران کو سمجھنے اور خطاب کرنے میں ناکامی کو دکھاتا ہے۔ ‘
رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے،’اس کا سیدھا مطلب رہائش ایکائیوں کی کمی ہے اور ایک بہت بڑا طبقہ مناسب رہائش گاہ ہونے کے انسانی حقوق سے محروم ہے۔’