غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت سال 2022 میں سب سے زیادہ 371 معاملے جموں و کشمیر میں درج کیے گئے۔ اس کے بعد منی پور میں 167، آسام میں 133 اور اتر پردیش میں 101 معاملے درج ہوئے۔
نئی دہلی: غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت 2022 میں ملک بھر میں درج کیے گئے 1005 مقدمات میں سے سب سے زیادہ 371 معاملے جموں و کشمیر میں درج کیے گئے۔ اس کے بعد منی پور میں 167، آسام میں 133 اور اتر پردیش میں 101 معاملے درج ہوئے۔
ٹائمز آف انڈیا نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے حوالے سے یہ جانکاری فراہم کی ہے۔
اخبار نے بتایا کہ شمال مشرقی ہندوستان میں باغی گروپوں کی طرف سے کیے گئے حملے اس دوران 2021 کے 41 سے کم ہو کر 26 رہ گئے اور اکثر میں سرکاری اور نجی شعبے دونوں کی ملکیت والے اقتصادی اداروں (22) کو نشانہ بنایا گیا۔
دہشت گردوں، زیادہ تر جموں و کشمیر کے ذریعے 2022 میں کیے گئے 196 حملوں میں سے 107 پولیس اسٹیشنوں یا سیکورٹی کیمپوں پر کیے گئے۔ نکسلیوں نے سیکورٹی کیمپوں یا پولیس اسٹیشنوں پر 154 حملے کیے، جبکہ 64 حملے ‘دیگر اداروں’ پر، 4 حملے اقتصادی اداروں پر اور 2 حملے ریلوے یا انفراسٹرکچر پر کیے گئے۔
نکسلیوں نے 2022 میں 66 شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں سے 23 مخبر تھے۔ یہ 2021 سے زیادہ ہے، جب انہوں نے 53 شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ نکسلیوں نے 4 سیکورٹی اہلکاروں کو بھی ہلاک کیا، جن میں 2 مرکزی نیم فوجی دستوں کے تھے، حالانکہ یہ 2021 میں ہونے والی 43 ہلاکتوں سے کم ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، دہشت گردوں، خاص طور پر جموں و کشمیر کے، نے گزشتہ سال 22 شہریوں اور 25 سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا، 2021 میں 35 عام شہری اور 43 سیکورٹی اہلکار کو ہلاک کیا تھا۔
سال 2022 میں شمال مشرقی باغی گروپ نے مرکزی نیم فوجی دستے کے ایک اہلکار کو ہلاک کیا۔
منی پور کے باغیوں نے 2022 میں یو اے پی اے کے تحت 167 مقدمات کا سامنا کیا، جو 2021 میں 136 سے زیادہ ہے۔ آسام میں باغیوں کے خلاف یو اے پی اے کے 15 اور اروناچل پردیش میں 12 مقدمات درج کیے گئے۔
جموں و کشمیر میں 2022 میں دہشت گردوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت 204 اور آرمس ایکٹ کے تحت 121 مقدمات درج کیے گئے۔ یہ تعداد پچھلے سال کے اعداد و شمار سے زیادہ ہے،اس وقت 134 معاملے یو اے پی اے کے تحت اور آرمس ایکٹ کے تحت 113 معاملے دہشت گردوں کے خلاف درج کیے گئے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے قانون سب سے پہلے 1967 میں لاگو کیا گیا تھا، لیکن کانگریس حکومت کی طرف سے 2008 اور 2012 اور اس کے بعد نریندر مودی حکومت کی حالیہ ترامیم نے اسے مزید سخت بنا دیا ہے۔
یو اے پی اے کی دفعات کے تحت الزامات کا سامنا کرنے والے لوگوں کے لیے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ ملزم کے خلاف الزامات پہلی نظر میں درست ہیں تو اسے ضمانت پر رہا نہیں کیا جا سکتا۔
نتیجے کے طور پر، یو اے پی اے کے تحت الزامات کا سامنا کرنے والے زیادہ تر لوگ طویل عرصے تک زیر سماعت قیدیوں کے طور پر جیلوں میں رہتے ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں
فری اسپیچ کلیکٹو نے اپنی ایک
رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2010 سے اب تک ملک میں 16 صحافیوں پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جہاں فی الحال 7 جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔