ہندوستان کے نئے خارجہ سکریٹری ونے کمار کواٹرا

لگتا ہے وزارت خارجہ میں امریکہ نواز لابی کو مزید تقویت بخشنے کے لیے کواٹرا کی تقریری کی گئی ہے۔ کیونکہ نہ صرف وہ جے شنکر کے قریبی مانے جاتے ہیں، بلکہ جب مودی نے 2014میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا، تو وہ ان کے لیے کئی ماہ تک بطور مترجم و معاون کار کے کام کرتے تھے اور ان کے لیے تقریریں لکھنے کا بھی کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست مودی کے رابطہ میں رہتے تھے۔

لگتا ہے وزارت خارجہ میں امریکہ نواز لابی کو مزید تقویت بخشنے کے لیے کواٹرا کی تقریری کی گئی ہے۔ کیونکہ نہ صرف وہ جے شنکر کے قریبی مانے جاتے ہیں، بلکہ جب مودی نے  2014 میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا، تو وہ ان کے لیے کئی ماہ تک بطور مترجم و معاون کار کے کام کرتے تھے اور ان کے لیے تقریریں لکھنے کا بھی کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست مودی کے رابطہ میں رہتے تھے۔

ہندوستان کے نئے خارجہ سکریٹری ونے کمار کواٹرا، فوٹو: اے این آئی

ہندوستان کے نئے خارجہ سکریٹری ونے کمار کواٹرا، فوٹو: اے این آئی

ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں پارلیامانی، خارجہ اور دفاع کی وزارتیں ہر دو یا تین سال کے وقفہ کے بعد بیٹ رپورٹرز کے لیے متعلقہ وزارتوں سے متعلق ایشوز کو سمجھنے اور ان کا عمیق جائزہ لینے کے لیے کورسز کا اہتمام کرتی ہیں۔

وزارت دفاع کا کورس تو کئی مہینوں تک محیط ہوتا ہے اور اس کے لیے رپورٹر کو کئی ماہ تک دفتر سے چھٹی لینی پڑتی ہے، کیونکہ اس دوران ان کو ملک کے مختلف علاقوں میں مسلح افواج کی تینوں شاخوں کی بیس کمانڈز کا دورہ کرایا جاتا ہے۔

دفاع میرا بیٹ کبھی نہیں رہا  ہے، مگر چونکہ پارلیامانی اور خارجہ امور کی رپورٹنگ کئی دہائیوں سے  کرتا آیا ہوں اور ان کے کورسز بھی دارالحکومت میں ہی ہوتے ہیں، اس لیے میں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ ان کورسز کا اہتمام دہلی میں موجود انسٹی ٹیوٹ آف فارن سروسزمیں کراتی ہے، جہاں سفارت کاروں کو بھی ٹریننگ فراہم کرائی جاتی ہے۔

ہندوستانی وزارت خارجہ میں تقریباً 62ڈویژن کام کرتے ہیں اور یہ کورسز وزارت کی اندرونی ورکنگ کے علاوہ مختلف خطوں میں ہندوستان کے مفادات کے متعلق بریفنگ کے علاوہ رپورٹروں کو ان ڈویژنوں کے سربراہوں سے بالمشافہ ملاقات کا موقع فراہم کراتے ہیں۔ ایک طرح سے رپورٹروں اور وزارت کے بیوروکریٹس کے درمیان زندگی بھر کا ایک رشتہ سا قائم ہوجاتا ہے۔

اسی طرح کے ایک کورس کے دوران مجھے یاد ہے کہ ایک خاموش طبع افسر، جو شاید اس وقت پالیسی، پلاننگ ڈویژن کے سربراہ تھے، ایک بار لیکچر دینے کے لیے وارد ہوئے۔ ان کے لیکچر کی کوئی خاص بات یاد تو نہیں ہے، مگر وہ خود مختلف موضوعات پر اپنے طالبعلموں یعنی رپورٹروں سے گفتگو کرکے حالات و واقعات جاننے کی جستجو کرتے تھے۔

چائے یا لنچ کے وقت تو وہ میز پر داخلی اور بین الاقوامی سیاست اور دیگر امور پر متعلقہ رپورٹرز پر سوالات کی بوچھار کرتے تھے۔ چونکہ اکثر بیوروکریٹ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اس لیے ان کا یہ رویہ اورطرز تجسس منفرد تھا۔ یہ افسر تھے ونے کمار کواٹرا، جو اب یکم مئی سے ہندوستان کے نئے خارجہ سکریٹری مقرر ہوئے ہیں۔

اتراکھنڈکے صحت افزا مقام مسور ی میں واقع لال بہادر شاستری اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن، جہاں سول سروسز افسرا ن کی ٹریننگ ہوتی ہے، میں کواٹرا کے گروپ کے افسرا ن کا کہنا ہے کہ وہ وہاں بھی ہر وقت معلومات حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سائنس بیک گراونڈ سے تھے اور بین الاقوامی امور وسماجی علوم کے سا تھ بطور طالبعلم  ان کا واسطہ نہیں رہا تھا۔

گو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حکومت میں خارجہ سکریٹری کے پوسٹ کی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے، جو اس کا خاصہ ہوتا تھا، مگر اس نئی تقرری سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہندوستان، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔ 2015میں سبرامنیم جے شنکرکو خارجہ سکریٹری  اور بعد میں 2019میں انہیں وزیر خارجہ انہی وجوہات کی بنا پر بنایا گیا تھا۔

جے شنکر جب سکریٹری خارجہ بنائے گئے تھےتو انہوں نے کواٹرا کو وزارت خارجہ میں امریکہ ڈویژن کا سربراہ بنایا تھا۔ اس سے قبل وہ خود ہی اس ڈویژن کے ہیڈ تھے اور اس حیثیت سے انہوں نے ہندوستان–امریکہ جوہری معاہدہ کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔

انعام کے طور پر 2013میں منموہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سکریٹری کے لیے تجویز کیا، جس کی کانگریس پارٹی کے اندر سے سخت مخالفت ہوئی۔ وزیر اعظم کو بالآخر سرخم کرکے سجاتا سنگھ کو خارجہ سکریٹری بنانا پڑا۔مگر جنوری 2015 کو جب امریکی صدر براک اوبامہ ہندوستان کا دورہ ختم کرکے طیارہ میں سوار ہوگئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سکریٹری خارجہ بنایا دیا۔

وہ صرف دو دن بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔ جے شنکر اس وقت امریکہ میں ہندوستان کے سفیر تھے اور اوبامہ کے دورہ کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔انہیں فی الفور رات کو ہی فارن آفس میں رپورٹ کرنے اور عہدہ سنبھالنے کے لیے کہا گیا۔

جے شنکر کو خارجہ سکریٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈران نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکہ نواز آفیسر کو اس اہم عہدہ پر فائز کرانے سے ہندوستان کی غیر جانبدارانہ شبیہ متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکہ کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔

کانگریسی لیڈروں نے منموہن سنگھ کو بتایا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ مملک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ کانگریسی لیڈروں کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔ 19 دسمبر 2005 کو ایک کیبل میں امریکی سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سکریٹری شیام سرن کے دورہ امریکہ کے ایجنڈہ کے بارے میں معلومات دی ہیں۔

امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہندوستانی موقف کی جانکاری خارجہ سکریٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں ہندوستان کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کے لیے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔

یعنی ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل 2005میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانٹنامو بے کے معاملے پر ہندوستان، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دےگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔

اس کے علاوہ جے شنکر نے ایک  نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سٹیلائٹ کی جانکاری تھی، جو ہندوستانی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980میں واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میں شناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسطہ طور پر خاصی مدد کی۔

اس وقت ہندوستانی خارجہ پالیسی کے محور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور سبرامنیم جے شنکر ہیں۔ عرب ممالک کو قابو میں کرنے کے لیے اجیت ڈوبھال سے کام لیا جاتا ہے، جہاں ان کے صاحبزادے کے عرب شہزادوں کے ساتھ کاروباری مفادات ہیں، اور امریکہ کو دام میں رکھنے کا کام جے شنکر کو سونپا گیا ہے۔

لگتا ہے وزارت خارجہ میں امریکہ نواز لابی کو مزید تقویت بخشنے کے لیے کواٹرا کی تقریری کی گئی ہے۔ کیونکہ نہ صرف وہ جے شنکر کے قریبی مانے جاتے ہیں، بلکہ جب مودی نے 2014میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا، تو وہ ان کے لیے کئی ماہ تک بطور مترجم و معاون کار کے کام کرتے تھے اور ان کے لیے تقریریں لکھنے کا بھی کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست مودی کے رابطہ میں رہتے تھے۔

کواٹرا کا پاکستان کے ساتھ بھی تعلق رہا ہے، وہ 1993میں پاکستان کے کراچی قونصلیٹ میں بطور سفارت کار مقرر ہوئے تھے، مگر پانچ ماہ بعد ہی ان کو واپس بلایا گیا اور اس کے ایک سال بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اس قونصلیٹ پر دہشت گردی اور تخریب کاری میں معاونت کا الزام لگا کر اس کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

سال  1996میں جب افغانستان پر طالبان نے کنٹرول حاصل کیا، تو کواٹرا کو تاشقند میں بطور فرسٹ سکریٹری متعین کیا گیا تھا، کیونکہ تاجکستان کے بعد ازبکستان اس وقت طالبان مخالف شمالی اتحاد کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ہندوستان  کی طرف سے کواٹرا ہی شمالی اتحاد کے لیڈروں کے ساتھ رابطہ میں رہتے تھے۔

مگر ان کا حالیہ کارنامہ، جس کی وجہ سے انہوں نے خارجہ سکریٹری کی ریس میں اپنے سے سینئر ساتھیوں کو پچھاڑا، وہ یہ تھا کہ 2020  میں ان کو بطور سفیر نیپال میں متعین کرنے کے بعد اس ملک میں کسی حد تک ہندوستان کے لیے راستہ دوبارہ ہموار ہوگیا ہے۔

نیپالی سیاست میں میں شدیدہندوستان مخالف جذبات کے علاوہ کاٹھمنڈو میں چین نے حالیہ عرصے میں خاصا اثر و رسوخ حاصل کیا ہے۔ کواٹرا نے بڑی حد تک نیپالی سیاست میں ہندوستان کو واپس مقام دلایا ہے۔جس کی وجہ سے انعام کے بطور ان کو خارجہ سکریٹری کی کرسی عنایت کی گئی ہے۔

دیکھنا ہے کہ وہ کس حد تک اس کرسی سے انصاف کرپاتے ہیں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں یا جے شنکر کی طرح پڑوسی ممالک کے ساتھ بے رخی کے ساتھ پیش آکر سات سمندر دور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ہی ترجیح دیں گے۔