بندوقوں کے دہانے ان لوگوں کی طرف کردیے گئےجو باغ میں نماز ادا کرنے کےلیے صف بستہ تھے۔ ایک شخص دیوار کی بلندی سے اذان دے رہا تھا کہ پولیس کی گولی سے ڈھیر ہوگیا۔ جو ش وجنوں کا یہ عالم تھا کہ اس کی جگہ دوسرے نے اذان وہاں سے جاری رکھی، جہاں سے پہلا شخص گولی لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ اس کو بھی گولی سے بھون دیا گیا۔ اس طرح 22افراد جام شہادت نوش کر گئے۔
فوٹو: بہ شکریہ ٹوئٹر@MirwaizKashmir
کیا عجب اتفاق ہے کہ 13جولائی 1779کو فرانس کے دارلحکومت پیرس کے باشندوں نے باسطل کے زندان پر دھاوا بول کر عوامی انقلاب کی جس طرح ابتدا کر دی، بالکل اسی طرح 152سال بعدیعنی 1931میں اسی دن سرینگر کی سینٹرل جیل کے باہر دبے کچلے کشمیری عوام نے آزادی کا الاؤ روشن کردیا۔ کشمیر کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی غیر معمولی اور اہم دن ہے اور پچھلے 89سالوں سے کشمیر کے سبھی طبقے چاہے ہند نواز ہوں یا آزادی پسند، اس کو ایک قومی دن کے بطور مناتے آئے ہیں۔
جس طرح ہندوستانی عوام 1857کی جنگ آزادی یا31اپریل کو امرتسر کے جلیاں والہ باغ کے قتل عام کو فراموش نہیں کرسکتے ہیں، اسی طرح 13 جولائی 1931 کا خون سے لت پت دن جموں وکشمیر میں بسنے والے تمام مظلوم وبے نوا فرقوں اور سارے علاقوں کی مظلوم عوام کی آزادی اور بیداری کا نقیب ہے۔
جموں کی معروف معمر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے بقول مفاد خصوصی رکھنے والے ایجنٹوں نے 1931سے لے کر آج تک یہ متواتر کوشش کی کہ اس تحریک کوفرقہ وارانہ رنگت میں پیش کریں ا ور اسے ڈوگرہ عوام اور ہندوؤں کے خلاف بغاوت ظاہر کریں۔ جبر و استبداد کی چکی میں کشمیری عوام تقریباً ساڑھے چار سو سالوں سے پس رہے ہیں۔ مغل فرمانراو اکبر کے جنرل بھگوان سنگھ نے جب کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو دھوکے سے لاہور بلاکر اور پھر قید کرکے بہار جلا وطن کیا، تب سے ہی کشمیر پر گورنروں یا گماشتوں کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے۔
مگر اب کشمیری مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کرنے کے لیے تاریخ مسخ کرکے یہ باورکرایا جارہا ہے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے اور 13جولائی کے شہیدوں کو فسادی اور غل غپاڑہ مچانے والے سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ نہ صرف اس سال اس دن کو سرکاری کلینڈر سے خارج کردیاگیا، بلکہ اس کے بدلے مہاراجہ گلاب سنگھ کے جنم دن (7 اکتوبر)کو سرکاری تعطیل میں شامل کیا گیا۔
شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوں کو ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔اگر واقعی جموں کے ہیرو کا درجہ کسی کو دینا ہے تو میاں ڈیڈو جموال، باوا جیتو، کیسری سنگھ‘ دھنونتری بھاگ مل، پونچھ کے راجہ علی خان، سبز علی خان، شمس خان‘ بھمبرکے راجہ سلطان خان، بدھ سنگھ، چودھری غلام عباس وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں جنہوں نے اس خطے کی ٓ آزادی کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کردیں یا زیادتیاں برداشت کیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کے یہ نام نہاد ہیرو لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے۔ اس خدمت خاص کے عوض اور 75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے تاوان جنگ ڈالا تھا‘ کی ادائیگی کرکے ”بیع نامہ امرتسر’ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ 1846ء سے 1947ء تک جموں کے ‘ہیروؤں’کے اس خانوادے نے جموں وکشمیر کی عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔
غورطلب ہے کہ 13جولائی کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ نے اپنی
سوانح حیات آتش چنار میں درج کیا ہے کہ 29 اپریل کو عید کے دن جموں صوبہ میں نماز عید کے بعد جب امام منشی اسحاق نے خطبہ پڑھنا شروع کیا، تو ڈپٹی انسپکٹر جنرل چودھری رام چند کی ایما پر سب انسپکٹر بابو کھیم چندنے رعونت کے ساتھ خطبہ بند کرنے کے لیے کہا۔ اس کے خلاف کئی اجتماعات ہو ہی رہے تھے، کہ جموں کی پولیس لائن میں کانسٹبل لبھو رام نے ایک دوسرے مسلمان کانسٹبل کے سامان سے قرآن پاک چھین کر اس کی بے حرمتی کی۔
اس کے ساتھ جموں سے 15میل دور ڈگھور میں مسلمانوں کو نماز جمعہ پڑھنے سے روک دیا گیا۔ ابھی تک کشمیر میں کوئی منظم تنظیم قائم نہیں ہوئی تھی۔ مگر ان واقعات پر احتجاج درج کرنے کے لیے اسکول ماسٹر شیخ عبداللہ سمیت کئی نوجوانوں نے پوسٹر چسپاں کرنے کا پروگرام بنایا۔ پوسٹر چسپاں کرتے ہوئے پولیس نے محمداسماعیل نامی ایک شخص کو گرفتار کیا اور جب اس کو تھانے لے جایا جارہا تھا تو ایک جم غفیر اس کے پیچھے چل پڑی۔ بھیڑ کو دیکھ کر تھانے دار نے اسماعیل کو تو چھوڑ دیا، مگر ہجوم اس کو جلوس کی صورت میں سرینگر کی جامع مسجد لے گئی، جہاں 15ہزار افراد کے سامنے شیخ عبداللہ نے پہلی عوامی تقریر کی۔
لحن داؤدی میں قران کی تلاوت اور یہ شعر:آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کےلیے۔بادلوہٹ جاؤ، دے دو راہ جانے کےلیے۔پڑھ کر ہجوم پر رقت طاری کروائی۔
ان حالات کے پیش نظر مہارجہ ہری سنگھ نے سیاسی مشیر ای سی ویکفیلڈکے مشورہ پر ریاستی مسلمانوں کا ایک نمائندہ وفد طلب کیا، جو اپنی شکایات اور مطالبات پیش کرے۔ جموں سے مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمان، چودھری غلام عباس اور شیخ عبدالحمید کو نامزد کیا گیا۔ کشمیر سے نمائندوں کو طے کرنے کےلیے سرینگر میں میر سید علی ہمدانی کی درگاہ یعنی خانقاہ معلی کے صحن میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں سات افراد میر واعظ یوسف شاہ، میر واعظ احمداللہ ہمدانی، آغا سید حسن جلالی، خواجہ غلام احمد عشائی، منشی شہاب الدین، خواجہ سعدالدین شال اور شیخ محمد عبداللہ کو اتفاق رائے سے نمائندگی کےلیے منتخب کیا گیا۔
فوٹو بہ شکریہ، وکی پیڈٰیا
یہ گروپ میمورنڈم و مطالبات کو تحریری شکل دینے کےلیے پاس کے ہمدانیہ مڈل اسکول میں چلا گیا۔تقریباً ایک لاکھ افراد ابھی بھی خانقاہ کے صحن میں جمع تھے کہ ایک غیر ریاستی پٹھان عبدالقدیر اسٹیج پر وارد ہوگیا۔ یہ شخص پشاور میں یورک شائر رجمنٹ کے ایک انگریز میجر کے ساتھ خانساماں کے طور پر کشمیر آیا تھا۔چونکہ وہ پاس ہی نسیم باغ میں ایک ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا تھا، اس لیے درگاہ حضرت بل میں وہ نماز ادا کرنے آتا تھا اوروہاں کئی بار اس نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کرکے کشمیر ی مسلمانوں کی زبوں حالی پر تاسف کا اظہار کیا۔
بقول شیخ عبداللہ، جب وہ دیگر نمائندگان کے ساتھ چائے نوش کر رہے تھے، تو دریائے جہلم کے کنارے خانقاہ کے صحن سے زور و شور سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ عبدالقدیر اسٹیج سے تقریر کررہا ہے۔ پولیس کے خفیہ محکمہ سی آئی ڈی نے اس کی تقریر کچھ یوں ریکارڈ کی ہے۔ ”مسلمانو اب وقت آگیا ہے، کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ یادداشتوں اور گزارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق آئےگانہ توہین قرآن کا مسئلہ حل ہوگا۔ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤاور ظلم کے خلاف لڑو۔ راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبدالقدیر نے بتایا کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔“
اسی رات عبدالقدیر کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے سرینگر سینٹرل جیل میں قید کر دیا گیا۔ عوامی غیض و غضب کو دیکھ کر ڈوگرہ حکمرانوں نے جیل کے احاطہ کے اندر ہی عدالتی کاروائی 13جولائی کو مقرر کی۔ کسی کال کے بغیر ہی ہزاروں لوگ اس دن سینٹرل جیل کے باہر احاطہ میں صبح سویرے سے ہی جمع ہوگئے۔ جب ہجوم نماز ظہر کی تیاری کر رہا تھا کہ گورنر رائے زادہ تلوک چند سپاہیوں کی ایک پلٹن کے ساتھ نمودار ہوا۔ پہلے تو اس کے جیل حکام کو خوب لتاڑا کہ اس بھیڑ کو کس طرح جیل کے باہر میدان میں جمع ہونے دیا۔ اور پھر گولی چلانے کا حکم دیا۔
بندوقوں کے دہانے ان لوگوں کی طرف کردیے گئے، جو باغ میں نماز ادا کرنے کےلیے صف بستہ تھے۔ ایک شخص دیوار کی بلندی سے اذان دے رہا تھا کہ پولیس کی گولی سے ڈھیر ہوگیا۔ شیخ عبداللہ کے مطابق جو ش جنوں کا یہ عالم تھا کہ اس کی جگہ دوسرے آدمی نے لی اور اذان وہاں سے جاری رکھی، جہاں سے پہلا شخص گولی لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ اس کو بھی گولی سے بھون دیا گیا۔ اس طرح 22افراد جام شہادت نوش کر گئے۔ زخمیوں کی تعداد تو سینکڑوں میں تھی۔ شہید کے ایک کرتے کو پرچم بنا کر ہجوم جامع مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔ ان شہدا کی سرخ روئی کا اس سے اور کیا بڑ ا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ویکفیلڈ نے اعتراف کیا کہ سبھی شہیدوں کے سینوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔
شہیدوں اور زخمیوں کو جامع مسجد کے صحن میں رکھا گیا تھا۔ اسی دوران ایک شدید زخمی نوجوان نے شیخ عبداللہ کو اشارے سے قریب بلایا اور نجیف آواز میں کہا: ‘شیخ صاحب، ہم نے اپنا فرض اد اکر دیاہے۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے، قوم سے کہیں کہ وہ اپنا فرض نہ بھولیں۔’اس کے ساتھ ہی اس نوجوان نے ہچکی لےکر جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔
مگر وائے افسوس شیخ عبداللہ نے اس شہید کی آخری وصیت کا پاس رکھنے کے بجائے فیصلہ کن لمحوں میں اقتدار کی نیلم پری کو گلے لگانے کی خاطر خطے کو ایک گرداب میں پھینکنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے آج تک سرزمین کشمیر شہیدوں کے لہو سے لالہ زار چلی آرہی ہے۔
شہیدوں کو زیارت گاہ خواجہ نقشبند صاحب کے احاطہ میں،جو مزار شہدا سے موسوم ہے میں، دفن کردیا دیاگیا۔ یہاں پر سرکاری اور غیر سرکاری طورپرہر سال شہیدوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی اورگل باریاں کی جاتی تھیں، جلسے ہوتے تھے۔ پولیس گارڈ آف آنر پیش کرکے شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتی تھی۔اس سال سرینگر میں سرکاری طور پر ان شہدا کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کر دیا گیا کہ عوام ابھی بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔
وہ ابھی اپنے خوا بوں اور خواہشوں کے مطابق نظام حیات تعمیر نہیں کرسکے جس کےلیے بے انتہا قربانیاں دی گئیں۔آج بھی شہری آزادیاں مفقود ہیں، ظلم و ستم کی چکی رواں دواں ہے۔ شہیدوں کے نام پر قسمیں کھانے والے یہاں کے سیاست دانوں نے اپنے نجی اور گروہی مفادات کےلیے سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ 1931ء کے شہدا کا مشن ابھی تشنہ تکمیل ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اس ریاست کے لوگوں کےلیے سکون و اطمینان کی زندگی جینا محال ہے کیونکہ اس مسئلے کے حل طلب رہنے تک یہاں سیاسی بے یقینی بھی قائم رہے گی اور اقتصادی ترقی کی راہیں بھی مسدود رہیں گی۔وقت کا تقاضا ہے کہ حکمراں اس مسئلے کو اپنے مفادات اور انا کی بھینٹ نہ چڑھاتے ہوئے دور اندیشی اور انسان نوازی کا ثبوت دے کر اس مسئلے کے حل کے لیے آگے آئیں اور ریاست کی مظلوم عوام کا مسلسل کرب ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔